
ٹمٹماٹے وجود میں
جھلملاتی یادیں
سبز پتوں سی بے یقینی کا
آنچل تانے کواڑوں سے لگی
ڈھیر ہوتی جاتی ہیں
قسمتوں کے فیصلے
جتنی جلد ہو جائیں
ملال کے جتنے لمحے
روح سے کم ہو جائیں
اسقدر ہی اچھا ہے
بجھتی لہلہاتی لو
ہوا کی ہر نئ چال سے سے
لپٹےہر سہم کے کال سے
تو دیےکا دل
حلق میں آ جاتاہے
ارد گرد بھرتا دھواں
گزرے وقتوں کی الجھن سے
مل کے کھوئے ہوئے کل سے
ٹوٹے ہوئے اس دل سے
یادیں مٹاتا جاتا ہے
بے آباد اندھیروں کے
آسیب رنگ سائے
دور جاتی مشعلوں کی
محبتوں کے سوگ میں
ہجر میں و روگ میں
ڈھیر ہوتے جاتے ہیں
ہر شام اگلی صبح کی آنکھ میں
نمی سی بھر کے جاتی ہے
چڑھتے سورج کی کوکھ میں
روشنی بھر کے جاتی ہے
پھر کبھی نا آنے کو
نئی شام لانے کو
( یکم جولائی ٢٠١٨)
Like this:
Like Loading...
Related
Published